رمضان کے بعد کی زندگی
ظفرکبیر نگری
شیو بزرگ، تعلقہ کھیڈ، ضلع رتناگری مہاراشٹر
نیکیوں کا موسم بہار: ابھی کچھ دنوں قبل ہم نیکیوں کے موسم بہار رمضان المبارک کی آمد کا شدت سے انتظار اور اس کے استقبال کے لئے چشم براہ تھے، اور اللہ کی توفیق سے وہ وقت بھی آگیا جب رمضان المبارک اپنی روحانی، جسمانی اور نورانی برکات کے ساتھ جلوہ فگن ہوا، اس کے آنے سے موسمِ بہار کا سا سماں پیدا ہو گیا، ہر سو نورانیت کے جلوے بکھرے نظر آئے، دل ودماغ میں محبت اور روشنی چمکتی نظر آئی، جذبات صیقل ہوئے، کشتِ تقوی کی آبیاری ہوئی، زندگی میں روحانیت کی گہماگہمی رہی، احساس بیدار رہے، غریب مفلس اور نادار بھائیوں کی تنگدستی کا احساس ہوا، صدقہ و خیرات میں غیر معمولی اضافہ ہوا، اخوت، باہمی ہمدردی اور مومنانہ ایثار و خلوص کی لہر سارے معاشرہ پر چھائی رہی، دعاؤں کی اجابت کے آسمانی دروازے کھلے رہے، اوردیکھا گیا کہ رمضان المبارک میں بہت اچھے اندازمیں فرزندان توحید نے ایمان و احتساب کے ساتھ روزوں کے اہتمام اور قیام رمضان پر کامل یقین و ایمان کے ساتھ مکمل توجہ دی، اور اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا کہ لوگوں نے انفرادی و اجتماعی طور پر جوق در جوق اورگروپوں میں مساجد کا رخ کیا ، فرائض ادائیگي میں وقت کی پابندی کے ساتھ ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کثرت نوافل کا بھی خوب اہتمام کیا ، تلاوت قرآن کی کثرت کے ساتھ اس کے معانی و مفاہیم پر تدبر و تفکر اور اس کے پیغام کو سمجھنے پر بھی وقت لگایا، اورصدقہ وخیرات کرنے پران کا حرص بھی قابل رشک اور قابل دید رہا، بندگان خدا نے نیکی وبھلائ اورخیر کےکاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کی کوشش کی،روزے کی حالت میں دل کھول کر اللہ کے لئے پریشان حال لوگوں کی خدمت کی، اور روزے کے تین بڑے مقاصد تقویٰ، اللہ کی عظمت و کبریائی اور اظہار شکر کے حصول کا جذبہ دلوں میں پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی،
کثرت عبادات ہمیں دھوکہ میں نہ ڈال دے:
لیکن رحمتوں اور برکتوں کا یہ حصول، ماہ مقدس کی عبادات، صدقہ و خیرات، ذکر و اذکار اور اجتہاد ہمیں دھوکہ میں نہ ڈال دے، کیونکہ کثرت عبادات نافع نہیں، اور شیطان انسان کو اس کے اعمال کے حوالے سے وسوسے اور دھوکہ میں ڈال سکتا ہے، اور یہ کہہ سکتا ہے کہ ائے انسان تم نے بڑی بڑی عبادات اور کارہائے خیر کو انجام دیا ہے، رمضان کی ایک مہینے کی عبادت سے تمہارے پاس نیکیوں کا پہاڑ اور آجر و ثواب کا ذخیرہ جمع ہو چکا ہے اب اس کے بعد تمہیں نیکیوں کی ضرورت نہیں، اور یہ بات انسان کو فخر و غرور اور گھمنڈ و تکبر میں مبتلا کر سکتی، ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، اگر آدمی اپنی پیدائش سے موت تک ساری زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق گزار دے، پھر بھی قیامت کے دن اسے یہ عمل چھوٹا محسوس ہو گا۔(مسند احمد)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے اعمال و عبادات سے نہیں بلکہ اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہو گا، اعمال دخول جنت کی قیمت یا بدل نہیں بلکہ دخول جنت کے اسباب میں سے ہے، ہم جنت میں صرف اور صرف نیک اعمال کے ذریعے ہی داخل ہوسکتے ہیں نیک اعمال نہ کرنے والے داخل جنت نہیں ہو سکتے، لہذا اللہ کی رحمت کے بغیر کوئی جنت کا اہل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی جنت کی نعمتوں کا حقدار ہو سکتا ہے.
رمضان المبارک رخصت ہوا: اب رمضان المبارک کا مہینہ گزر جانے کے بعد ہم نے روزہ ، تراویح ، صدقہ و خیرات اور دعاء و استغفار اور دیگر عبادات کے ذریعے جو کمائی کی ہے اسے ضائع و برباد ہونے سے بچانے اور ہمیشہ کے لئے اس پر کاربند رہنے کے لئے کبائر سے اجتناب اور صغائر پر اصرار سے پرہیز، اللہ و رسول کی مخالفت سے بچنا ، شرک و کفر اور ریاء و نمود جیسی نیکیوں کو برباد کر دینے والے کاموں سے دور رہنا ، قطع رحمی ، والدین کی نافرمانی اور مسلمانوں کی ایذار سانی سے اپنے کو بچائے رکھنے کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل اعمال کی پابندی اور مواظبت ضروری اور لازم ہے.
قیام اللیل : شب وروز کی پانچ نمازوں کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رات میں ایک اور نماز بھی لازم کی گئی تھی۔ اسے بالعموم صلوٰۃ اللیل یا تہجد کی نماز کہا جاتا ہے، عام مسلمانوں کے لیے یہ ایک نفل نماز ہے او رجنھیں اللہ تعالیٰ توفیق دے ان کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اس کا اہتمام کریں، جس طرح رمضان المبارک میں عام طور پر اکثر لوگ بہ آسانی اس کا اہتمام کر لیتے ہیں اسی طرح بعد میں بھی اس کی پابندی اور اہتمام کی کوشش کرنی چاہیے، حضرت بلال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیام اللیل یعنی تہجد کا اہتمام کیا کرو، کیونکہ تم سے پہلے کے صالحین کا یہی طریقہ ہے، اور رات کا قیام یعنی تہجد اللہ سے قریب و نزدیک ہونے کا، گناہوں سے دور ہونے کا اور برائیوں کے مٹنے اور بیماریوں کو جسم سے دور بھگانے کا ایک ذریعہ ہے۔(ترمذی)، اس حدیث میں نماز تہجد کے چار اہم فوائد بتائے گئے ہیں، پہلا فائدہ یہ ہے کہ وہ دورِ قدیم سے صلحاء کا شعار، طریقہ اور ان کی عبادت رہی ہے، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وہ قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے ، اس سے ربِ کریم کی قربت ومحبت نصیب ہوتی ہے، حدیث میں ہے :اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے ، لہٰذاتم بھی اس وقت اس کے یاد کرنے والو ںمیں ہوسکتے ہو توضرور ہوجاؤ۔(ترمذی) کہ اس وقت تہجد او رذکر اللہ کے ذریعہ اس کاقرب بآسانی حاصل ہوسکتاہے، تیسرا فائدہ یہ کہ وہ کفارئہ سیئات کاذریعہ ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : "نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں"، اور نمازِ تہجد بہت بڑی نیکی ہے ، اس سے حق تعالیٰ گناہوں کو مٹا تے ہیں، جیسے موسم پت جھڑ میں تیز و تند ہوا درخت سے سوکھے پتوں کو گرا دیتی ہے اسی طرح نمازِ تہجد گناہوں کو مٹا دیتی ہے، چوتھا فائدہ یہ کہ وہ گناہوں سے بچاتی ہے ،اور ترکِ معاصی سے تہجد کی توفیق نصیب ہوتی ہے ۔اورتہجد سے حفظ معاصی کی توفیق ملتی ہے، حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی کے متعلق یہ شکا یت کی گئی کہ فلاں آدمی رات کو تہجد توپڑھتاہے ،مگر دن میں چوری کرتاہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :عنقریب اس کو تہجد کی نماز برائی سے روک دے گی۔(مسند أحمد)
باجماعت نماز : جس طرح رمضان المبارک میں نماز باجماعت کا اہتمام کرتے تھے اسی طرح ماہ مقدس کے گذر جانے کے بعد بھی اس کا اہتمام کیا جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،"نمازوں کی حفاﻇت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی،اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑے رہا کرو"۔(البقرہ:238)،درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جس کو اس حدیث رسول (صلى الله عليه وسلم) نے متعین کردیا ہے جس میں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے خندق والے دن عصر کی نماز کو صَلاة وُسْطَىٰ قراردیا۔ (بخاري ومسلم)، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم کو نہ بتاؤں وہ باتیں جن سے گناہ مٹ جائیں (یعنی معاف ہو جائیں یا لکھنے والوں کے دفتر مٹ جائیں) اور درجے بلند ہوں۔“ (جنت میں) لوگوں نے کہا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا کرنا وضو کا سختی اور تکلیف میں (جیسے جاڑے کی شدت میں یا بیماری میں) اور کثرت سے مسجد تک جانا ۔ (اس طرح کہ مسجد گھر سے دور ہو اور بار بار جائے) اور انتظار کرنا دوسری نماز کا ایک نماز کے بعد یہی «رباط» ہے۔“ (یعنی نفس کا روکنا عبادات کیلئے یا وہ «رباط» ہے جو جہاد میں ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے "ورابطوا")۔(مسلم)،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مسجد میں صبح شام بار بار حاضری دیتا ہے، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان کرے گا، وہ صبح شام جب بھی مسجد میں جائے۔(بخاری)، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
سنن موکدہ کا اہتمام : اللہ تبارک وتعالی نے فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ کچھ سنت و نوافل نمازیں بھی مشروع قرار دی ہے ، جن کی حیثیت ادائیگی میں فرائض و واجبات کی تو نہیں ہے ، البتہ بہت اہم ضرور ہیں، اس لئے کہ احادیث میں سنن و نوافل کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور خاص طور پر سنن موکدہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ تر غیب بھی دلائی ہے، اور قیامت کے دن فرائض میں اگر کچھ کوتاہی رہ گئی ہے تو ان کی تکمیل انہیں نوافل سے کی جائے گی ، جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے بندوں کے جس عمل کا حساب لیا جائے گا وہ ان کی نماز ہے ، اگر وہ درست ہوئی تو یقینا و ہ کامیاب اورسرخ رو ہوگا اور اگر نماز خراب ہوئی تو ناکام و نامراد ہوگا ، پھر اگر فرائض میں کچھ کوتاہی رہی ہو تو اللہ عزو جل فرمائے گا دیکھو کیا میرے بندے کے نامہٴ اعمال میں کچھ نوافل ہیں کہ اس کے ذریعہ فرائض کی کمی پوری کی جاسکے ؟ پھر اس کے سارے اعمال کا حساب اس طریقے پر ہوگا، (ترمذی) ،دوسرے یہ کہ رضائے الہی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ اس کے مقرر کردہ فرائض کی ادائیگی ہے پھر رضائے الہی میں سبقت لے جانے اور الہی قربت کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ نوافل ہیں ، جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالی ہے : اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں(بخاری)، تیسرے یہ کہ نوافل کا اہتمام رب کریم سے محبت اور اس سے تعلق قلبی کی دلیل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے، (مسلم)،لہذا ہر مومن بندہ کو چاہئے کہ سنت و نوافل میں خاص کر وہ سنن نوافل جو فرائض کے آگے پیچھے ہیں کوتاہی نہ کرے اور یہ کہہ کر پیچھا نہ چھڑائے کہ یہ فرائض میں داخل نہیں ہے اور نہ ہی ان کے چھوڑنے میں کوئی گناہ ہے اس سلسلے میں درج ذیل احادیث خاص طور پر قابل ذکر ہیں، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہرسے پہلے چار اور بعد میں دو رکعت پڑھتے اور مغرب کے بعد دو عشاء کے بعد دو اور فجر سےپہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔(مسلم)،ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہؓ سےمروی ہے کہ آپ نے ان مذکورہ بارہ رکعات کےبارے میں فرمایا کہ جس نے ان کی پابندی کی اللہ تعالیٰ اس کےلئے جنت میں گھر بنائے گا۔(مسلم)، حضرت ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے فرضوں کے علاوہ بارہ رکعت پڑھیں اللہ کے لئے جنت میں گھر بنائے گا، ایک اور روایت ہے کہ جس نے فجر کی دورکعت پڑھیں تو اس کےلئے دنیا اور اس میں جو کچھ ہے ان سب سے بہتر ہے۔(مسلم)
نماز وتر کا اہتمام: احادیث نبویہ کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضر ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ِوتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : صبح ہونے سے قبل نماز وتر پڑھو، (مسلم)
حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے مسلمانو! وتر پڑھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بھی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔(أبي داؤد) حضرت خارجہ بن حذافہ فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز عطا فرمائی ہے، وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے،اور وہ وتر کی نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نماز تمہارے لیے نماز عشا کے بعد سے صبح ہونے تک مقرر کی ہے، محدثین نے تحریر کیا ہے کہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ: نمازِ وتر دنیا وما فیہا سے بہتر ہے؛ کیونکہ اُس زمانہ میں سرخ اونٹ سب سے زیادہ قیمتی چیز تھی۔(ترمذى)حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص وتر سے سوتا رہ جائے یا بھول جائے تو جب یاد آئے (یا وہ جاگے) تو اسی وقت پڑھ لے۔أبي داؤد)، حضرت بریدہ اسلمی فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں(أبي داؤد)
تلاوت و تدبر قرآن: رمضان المبارک میں دیکھنے میں آتا ہےکہ تلاوت قرآن کا بڑا اہتمام کرتے ہیں اور کئی کئی مرتبہ قرآن کو مکمل کرنے کے خواہش رکھتے ہیں، رمضان المبارک کی برکت سے بعض لوگ ایک، بعض لوگ دو، بعض لوگ تین مرتبہ اور کچھ لوگ اس سے بھی زائد مرتبہ مکمل کرنے کا اہتمام کر لیتے ہیں، لہذا رمضان کے بعد اس کو طاقوں کی زینت نہ بناتے ہوئے اس کی تلاوت و تدبر کا کثرت سے اہتمام کرنا چاہیے، کوئی بھی مومن اور مسلم کسی وقت بھی اس کی تلاوت اور تدبر و تفکر سے مستغنی نہیں ہو سکتا، لہذا اپنے اعضاء وجوارح کو جلا بخشنے اور اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے کے لیے پابندی سے اس کی تلاوت ضروری ہے، "یقیناً یہ قرآن وه راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے" .(الاسراء:9)، حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: قرآن مجید پڑھا کرو، یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔(مسلم)، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف تلاوت کیا، اس کو ایک نیکی ملے گی اور اس ایک نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہےلیکن الف ایک حرف، لام، دوسرا اور میم تیسرا حرف ہے"(ترمذی)، حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرمایا: ”قرآن کو قیامت کے دن لائیں گے اور ان کو بھی جو اس پر عمل کرتے تھے اور سورۂ بقرہ اور آل عمران آگے آگے ہوں گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تین مثالیں دیں کہ میں ان کو آج تک نہیں بھولا۔ اول یہ کہ وہ ایسی ہیں جیسے دو بادل کے ٹکڑے یا ایسی ہیں جیسے دو کالے کالے سائبان کہ ان میں روشنی چمکتی ہو یا ایسی ہیں جیسی قطار باندگی ہوئی چڑیوں کی دوٹکڑیاں اور وہ دونوں اپنے صاحب کی طرف حجت کرتی ہوں گی۔(مسلم)، "اور رسول فرمائیں گے کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا"(الفرقان:30)، مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غوروفکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے، اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کاﺗرﻙ اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کےخلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے، ایک اور حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اور قرآن تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل بنے گا‘‘. یعنی قرآن کی ہدایت سے استفادہ کرو گے تو یہ دنیا میں تمہارے لیے دلیل ہے اور آخرت میں تمہارے لیے شافع بن کر کھڑا ہو جائے گا، اس لحاظ سے قرآن مجید دنیا میں بھی حجت ہے‘ بایں طور کہ صحیح اور سیدھے راستے کی طرف آپ کی رہنمائی کرتا ہے اور قیامت میں بھی آپ کے حق میں شافع بن کر کھڑا ہوگا. اس کے برعکس اگر قرآن کو آپ نے رد کر دیا ‘ اس کے احکام کو آپ نے توڑ دیا یا قرآن کی ہدایت کو قبول کرنے سے اعراض کیاتو اس صورت میں یہ آپ کے خلاف گواہ بن کر کھڑا ہو گا اور کہے گا : اے اللہ! یہ کہتا تو تھا کہ مجھ(قرآن) پرایمان رکھتاہے‘ حالانکہ حقیقی معنوں میں اس کا مجھ پر ایمان نہیں تھا. یہ مجھے پڑھتا ہی نہیں تھا اور نہ اس نے کبھی مجھے سمجھنے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس قرآن کو ہمارے حق میں حجت بنادے‘ اسے ہمارا امام و راہنما بنا دے اور اسے ہمارے حق میں رحمت بنا دے. آمین یاربّ العالمین.
انفاق فی سبیل اللہ : ضرورت مندوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے مال خرچ کرنے کا قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جو مال تمہاری، چند روزہ زندگی میں تمہیں نصیب ہوا ہے اور جسے تم چھوڑ کر جانے والے ہو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر کے آخرت کا سامان تیار کرو، حالانکہ شیطان اس سلسلے میں انسان کو دھوکہ دینا چاہتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعده کرتا ہے، اللہ تعالیٰ وسعت واﻻ اور علم واﻻ ہے۔(البقرہ:268)، یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہوجاؤ گے، لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا۔ بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے اور ان کے لئے خفتہ آرزوؤں کو اس طرح جگاتا ہے کہ ان پر انسان بڑی سے بڑی رقم بے دھڑک خرچ کر ڈالتا ہے۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ مسجد، مدرسے یا اور کسی کار خیر کے لئے کوئی چندہ لینے پہنچ جائے تو صاحب مال سو، دو سو کے لئے بار بار اپنے حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اور مانگنے والے کو بسا اوقات کئی کئی بار دوڑاتا اور پلٹاتا ہے۔ لیکن یہی شخص سینما، ٹیلی ویژن، شراب، بدکاری اور مقدمے بازی وغیرہ کے جال میں پھنستا ہے تو اپنا مال بےتحاشا خرچ کرتا ہے۔ اور اس سے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد کا ظہور نہیں ہوتا، دوسری جگہ ارشاد باری ہے، جب تک تم اپنی پسندیده چیز سے اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ نہ کروگے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے، اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے.(آل عمران:92)، بر (نیکی بھلائی) سے مراد یہاں عمل صالح یا جنت ہے (فتح القدیر) حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابو طلحہ انصاری (رضي الله عنه) جو مدینہ میں اصحاب حیثیت میں سے تھے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ! بیرحا باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اسے اللہ کی رضا کے لئے صدقہ کرتا ہوں۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا وہ تو بہت نفع بخش مال ہے، میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ چنانچہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے مشورے سے انہوں نے اسے اپنے اقارب اور عم زادوں میں تقسیم کر دیا (مسند أحمد) اسی طرح اور بھی متعدد صحابہ نے اپنی پسندیدہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کیں۔مِمَّا تُحِبُّونَ میں مِنْ تَبْعِيض کے لئے ہے یعنی ساری پسندیدہ چیزیں خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ۔ اس لئے کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ اچھی چیز صدقہ کی جائے۔ یہ افضل اور اکمل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمتر چیز یا اپنی ضرورت سے زائد فالتو چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کا صدقہ نہیں کیا جا سکتا یا اس کا اجر نہیں ملے گا، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اچھی یا بری چیز، اللہ اسے جانتا ہے، اس کے مطابق جزا سے نوازے گا۔(ابن کثیر)، حالانکہ اس کے مکلف وہی لوگ ہیں جو اہل ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے، اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتا. (البقرہ:286)، کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے. (الطلاق:7)، اللہ کے راستے میں خرچ کرنا جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے، حضرت عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کو اللہ تعالیٰ سے بات کرنا ہو گی اس طرح کہ اللہ اور اس کے بیچ میں کوئی ترجمہ کرنے والا نہ ہو گا اور آدمی داہنی طرف دیکھے گا تو اس کے اگلے پچھلے عمل نظر آئیں گے اور بائیں طرف دیکھے گا تو وہی نظر آئیں گے اور آگے دیکھے گا تو کچھ نہ سوجھے گا سوا دوزخ کے جو اس کے منہ کے سامنے ہو گی۔ سو بچو آگ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا دے کر بھی ہو۔“ اور دوسری روایت میں یہ زیادہ ہے کہ ”اگرچہ ایک پاکیزہ بات بھی کہہ کر ہو۔“(مسلم)
تجديد توبہ اور اس پر استمرار: رمضان المبارک میں کئے گئے اعمال کی پابندی اور ہمیشہ اس پر قائم رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے ندامت کے آنسو بہاتے رہنا اور توبہ کرتے رہنا بہت ضروری ہے، توبہ گناہوں کی بخشش، دخول جنت اور کامیابی کا ذریعہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے، "اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو، قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناه دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان والوں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا، یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما، اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے". (التحریم:8)، خالص توبہ یہ ہے کہ، جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے، اسے ترک کر دے، اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے، آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم رکھے، اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے اس کا ازالہ کرے، جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے، محض زبان سے توبہ توبہ کر لینا کوئی معنی نہیں رکھتا، دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے، "اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ" .(النور:31)، حدیث میں ہے، اغر بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اے لوگو! تم اللہ سے توبہ مانگو اور استغفار کیا کرو؛ کیونکہ میں ایک دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں"(مسلم)،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم عن الخطأ ہونے کے باوجود دن میں سو بار استغفار اور توبہ کرتے تھے تو ہمیں تو ایک ہزار بار بلکہ اس سے بھی زیادہ کرنے کی ضرورت ہے، بہر حال قرآن مجید اور احادیث سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ توبہ کے بہت سارے منافع و فوائد ہیں، جیسے گناہوں سے پاک ہوجانا، رحمت الٰہی کا نزول ، بخشش خداوندی،عذاب آخرت سے نجات، جنت میں جانے کا استحقاق، روح کی پاکیزگی، دل کی صفائی، اعضاء و جوارح کی طہارت، ذلت و رسوائی سے نجات، باران رحمت کا نزول، مال و دولت اور اولاد کے ذریعہ امداد ، باغات او رنہروں میں برکت، قحط، ،مہنگائی اور غربت کا خاتمہ وغیرہ، اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے، آمین.
ذکرو اذکار کی پابندی: ا جس طرح رمضان المبارک میں دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ ذکر و اذکار کی پابندی اور اہتمام کیا گیا اسی طرح رمضان کے بعد بھی اس کا اہتمام ضروری ہے، کوئی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ’’اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو"۔(النساء:103)، یعنی دن ہو یا رات، خشکی ہو یا تری، سفر ہو یا حضر، ذکر کرنے والا غنی ہو یا فقیر، بیمار ہو یا تندرست، چھپ کر کرے یا اعلانیہ کرے، ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے، چنانچہ جب تم یہ کام کرلو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت نچھاور کر دیں گے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے مغفرت کی دعا کریں گے، مطلب یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اور ہر حالت میں اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے اپنے معبود حقیقی کو یاد رکھے اور اس کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو، ذکر الہٰی ہر عبادت کی اصل ہے تمام جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادت الہٰی ہے اور تمام عبادات کا مقصودِ اصلی یادِ الہٰی ہے، کوئی عبادت اور کوئی نیکی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد سے خالی نہیں، مردِ مومن کی یہ پہچان ہے کہ وہ جب بھی کوئی نیک عمل کرے تو اس کا مطمعِ نظر اور نصب العین فقط رضائے الہٰی کا حصول ہو، یوں ذکرِ الہٰی رضائے الہٰی کا زینہ قرار پاتا ہے، اس اہمیت کے پیش نظر قرآن و سنت میں جابجا ذکر الہٰی کی تاکید کی گئی ہے، کثرت ذکر محبت الہٰی کا اولین تقاضا ہے، انسانی فطرت ہے کہ وہ اس چیز کو ہمیشہ یاد کرتا ہے جس کے ساتھ اس کا لگاؤ کی حدتک گہرا تعلق ہو، وہ کسی صورت میں بھی اسے بھلانے کے لئے تیار نہیں ہوتا، ایسے لوگ جو حقیقی سکون کے متلاشی ہیں اُنہیں قرآن میں غور و فکر کرنا چاہئے، جہاں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘(الرعد:28)،اس آیت میں ذکر کا سب سے بڑا فائدہ بیان کیا گیا ہے کہ جو بھی اپنے رب کو یاد کرتا ہے، اس کو سکون قلب حاصل ہو تا ہے جو دنیا کی کسی بھی چیز میں نہیں ہے، یعنی حقیقی اور دائمی سکون صرف اور صرف ذکر اﷲ میں ہے، اگر کسی کی زندگی میں حقیقی اور دائمی سکون ہے تو اس کی زندگی جیتے جی جنت کا نمونہ بن جائے گی، اس کے برعکس تمام تر نعمتوں کے باوجود اگر کسی کی زندگی میں حقیقی اور دائمی سکون نہیں ہے تو اس کی زندگی جیتے جی جہنم کا نمونہ بن جائے گی کیوں کہ جنت میں سکون ہی سکون اور جہنم میں تکلیف ہی تکلیف اور عذاب ہی عذاب ہے۔
بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب : اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہوگے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے، تو ہم تمہارے چھوٹے گناه دور کر دیں گے اور عزت وبزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔(النساء:31)
کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کےنزدیگ وہ گناہ ہیں جن پر حد مقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول نے بطور تحریم کے روکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو وہ کبیرہ ہے، صاحب معارف القرآن کہتے ہیں، کبیرہ گناہ کی تعریف قرآن و حدیث اور اقوال سلف کی تشریحات کے ماتحت یہ ہے کہ جس گناہ پر قرآن میں کوئی شرعی حد یعنی سزا دنیا میں مقرر کی گئی ہے یا جس پر لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، یا جس پر جہنم وغیرہ کی وعید آئی ہے وہ سب گناہ کبیرہ ہیں، اسی طرح ہر وہ گناہ بھی کبیرہ میں داخل ہو گا جس کے مفاسد اور نتائجِ بد کسی کبیرہ گناہ کے برابر یا اس سے زائد ہوں، اسی طرح جو گناہ جراءت اور بےباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ (معارف القرآن:2)، احادیث میں مختلف کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے جنہیں بعض علما نے ایک کتاب میں جمع بھی کیا ہے۔ جیسے الكبائر للذهبي، الزواجر عن اقتراف الكبائر للهيتمي وغیرہ۔ یہاں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان کبیرہ گناہوں مثلاً شرک، عقوق والدین، جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرے گا تو ہم اس کے صغیرہ گناہ معاف کر دیں گے۔ سورۂ نجم میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے، البتہ وہاں کبائر کے ساتھ فواحش (بے حیائی کے کاموں) سے اجتناب کوبھی صغیرہ گناہوں کی معافی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں صغیرہ گناہوں پر اصرار ومداومت بھی صغیرہ گناہوں کو کبائر بنا دیتے ہیں، اسی طرح اجتناب کبائر کے ساتھ احکام وفرائض اسلام کی پابندی اور اعمال صالحہ کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے۔ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے شریعت کے اس مزاج کو سمجھ لیا تھا، اس لئے انہوں نے صرف وعدۂ مغفرت پر ہی تکیہ نہیں کیا، بلکہ مغفرت ورحمت الٰہی کے یقینی حصول کے لئے مذکورہ تمام ہی باتوں کا اہتمام کیا۔ جب کہ ہمارا دامن عمل سے تو خالی ہے لیکن ہمارے قلب امیدوں اور آرزؤں سے معمور ہیں۔
بری عادات سے احتراز : ہم سب جانتے ہیں کہ تمباکو، پان، بیڑی، سگریٹ حقہ، گٹکھا، پان مسالہ اور اس قبیل کی دوسری چیزیں صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، پھر بھی لوگ استعمال کرتے ہیں اور بڑی شان سے دھواں اڑاتے ہیں، اسی طرح ان کے نقصانات کے حوالے سے حکومتیں اور سماجی تنظیمیں لوگوں کو آگاہ کرتی رہتی ہیں، لیکن لوگ پھر بھی استعمال کرتے ہیں، ان سب چیزوں یا اس قبیل کی دوسری چیزوں کے عادی افراد نے رمضان میں یا تو کلی طور پر ان کو ترک کردیتے ہیں یا استعمال کم کرکے نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی کوشش کی ، حالانکہ جب اس سے قبل ان سے ان اشیاء کو تر کرنے کو کہا جاتا تھا تو وہ عادت اور لت لگ جانے کا عذر ظاہر کرکے بالکلیہ چھوڑ دینے میں ناکامی کا اظہار کرتے تھے، تو رمضان المبارک کے اندر ان میں یہ ارادہ عزیمت اور صبر کہاں سے آیا؟ ہرگھنٹے ان اشیاءکا استعمال کرنے والوں کے اندر چودہ سے پندرہ گھنٹے تک ان چیزوں کے بغیر گزارے کی طاقت کہاں سے آئی؟ ظاہر ہے اللہ کی توفیق، ماہ مقدس کی برکتوں اور رحمتوں سے ان مقدس ایام کے احترام میں لوگوں نے یہ سب کیا، اور عزم و حوصلہ و بلند ہمتی سے اس میں کامیاب ہوئے، کیونکہ یہ معلوم تھا کہ اس طرح کی اشیاء شروروفتن کو پیدا کرسکتی ہیں لہذا ان کو ترک کردیا، تو اگر رمضان المبارک گزر جانے کے بعد بھی اس پر قائم ہیں تو الحمدللہ، لیکن اگر ماہ مقدس کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی یہ عادت ہے آپ کے اندر باقی ہیں تو مندرجہ ذیل چار طریقے اپنا آپ ان سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں، سب سے پہلے تویہ کہ ان اشیاء کو چھوڑنے کے سلسلے میں پختہ عزم کا مظاہرہ کریں، اللہ تعالیٰ نے عزم و ارادے سے کام لینے والوں کوقرآن پاک میں سراہا ہے، دوسرا کام یہ کریں کہ پہلی فرصت میں ترک کرنے کی تاریخ اور وقت متعین کریں، اور اس سلسلے میں تردد و تذبذب اور آنا کانی سے بچیں، تیسرا کام یہ کیا جائے کہ ایسے لوگوں کی صحبت ترک کردیں جو ان چیزوں کے عادی ہوں، ان چیزوں کے عادی افراد کی مجلس میں جانے سے پرہیز کریں، چوتھا عمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دل کی گہرائی سے دعا کریں کہ وہ اس کام میں مدد فرمائے، والله الموفق والمستعان ۔
اعمال صالحہ پر استقامت و مداومت : ہمیں اپنے نفس کو نیک اعمال کی انجام دہی کے لئے زمان و مکان کا عادی نہیں بنانا چاہیے، بلکہ اعمال پر مداومت و مواظبت کا عادی بنانا چاہیے، اسی طرح اپنے کو رمضانی نہیں بلکہ ربانی بنانا چاہیے، اور رمضان المبارک جیسے نیکیوں کے موسم بہار کے علاوہ دیگر عام میں بھی اعمال کی انجام دہی میں سبقت کرنی چاہیے اور اسی پر ثابت قدم رہتے ہوئے اللہ کی رضا کے حصول کی کوشش ہونی چاہئے جیسا کہ حدیث میں ہے، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”میرے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔(بخاری)، استقامت کے فائدے قرآن مجید میں اس طرح بتائے گئے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اس پر ثابت قدم رہے تو ان کے پاس فرشتے یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ خوف اورغم نہ کرو، بلکہ اس کی جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم دنیا اور آخرت میں تمہارے مددگار ہیں اور تمہارے لئے وہاں (جنت میں) ہر قسم کی نعمتیں ہوں گی، جس کے لئے تمہاری خواہش ہو گی۔(اللہ) غفور رحیم کی طرف سے تمہاری مہمانی ہو گی (حمٰ سجدہ)
اعمال صالحہ پر استقامت و مداومت کے ذرائع :
ایمان لانے اور اعمال صالحہ کی انجام دہی کے بعد اس پر استقامت اور مداومت لازم ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت سفیان بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ سے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے اسلام کے متعلق ایسی بات بتائیے کہ پھر آپ کے بعد کسی اور سے مجھے پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے ۔ آپ نے فرمایا: ’’ اعلان کردو کہ میں اللہ پر ایمان لے آیا ہوں،پھر اس پر ڈٹ جائو۔‘‘ (مسلم)،اعمال صالحہ پر استقامت و مداومت کے اہم ذرائع اور وسائل مندرجہ ذیل ہیں.
1. زیادہ سے زیادہ صالحین کی صحبت اور ان کی مجالس میں شرکت، اسلاف اور بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ، اور ذکر کی مجالس میں حاضری جس سے دلوں میں ہمت و عزیمت پیدا ہوسکے.
2. پنج وقتہ نمازوں کی ان کے اوقات میں باجماعت ادائیگی کی کوشش، اسی طرح تلاوت و تدبر قرآن اور ذکر الہی کی کثرت.
3. اللہ سے مدد و استعانت اور پناہ طلب کرنا ثابت قدم رہنے اور برائیوں سے بچنے کی دعا کرنا، برے لوگوں کی صحبت، موسیقی و گانے سننے، غیبت و چغلی اور لایعنی امور میں وقت ضائع کرنے سے اجتناب کرنا، ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ نیک اعمال پر مداومت اللہ کو بہت محبوب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سے اللہ کو محبوب ہے آپ نے فرمایا جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ کم ہے مسلم آپ اللہ کی بھی یہی منشا ہے کہ انسان موت کا مال صالحہ پر مداومت کرے جیسا کہ ارشاد باری ہے، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے.(الحجر:99)، یہاں یقین سے مراد موت ہے۔
4. اللہ تعالی سے صراطِ مستقیم کی ہدایت مانگنا ، اسی لیے ہر مسلمان اپنی ہر نماز کی رکعت میں لازمی طور پر کہتا ہے، اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ، اے اللہ ہمیں سیدھے راستے کی رہنمائی فرما، شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شداد بن اوس! جب تم لوگوں کو دیکھو کہ وہ سونا چاندی جمع کر رہے ہیں تو تم ان کلمات کو ذخیرہ کرنا: " اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ، وَالْعَزِيمَةَ عَلَى الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ "اے اللہ! میں تجھ سے دین پر ثابت قدمی اور بھلائی پر پختگی کا سوال کرتا ہوں، اور تجھ سے تیری رحمت اور تیری مغفرت کا موجب اور یقینی سبب بننے والے اعمال کا سوال کرتا ہوں. (طبرانی).
5. اللہ تعالیٰ کی مدد پر یقین: جب دعا کی قبولیت یا کسی معاملے میں مدد اور نصرت میں تاخیر ہوتی ہے تو اس وقت استقامت اور ثابت قدمی کی ضرورت و اہمیت اور بڑھ جاتی، تاکہ ثابت قدمی کے تحقق کے بعد قدم تزلزل کا شکار نہ ہوں، اللہ تعالی ٰ کا فرمان ہے: ’’بہت سے نبیوں کے ہم رکاب ہو کر، بہت سے اللہ والے جہاد کر چکے ہیں، انہیں بھی اللہ کی راه میں تکلیفیں پہنچیں لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری نہ سست رہے اور نہ دبے، اور اللہ صبر کرنے والوں کو (ہی) چاہتا ہے۔وه یہی کہتے رہے کہ اے پروردگار! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم سے ہمارے کاموں میں جو بے جا زیادتی ہوئی ہے اسے بھی معاف فرما اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور ہمیں کافروں کی قوم پر مدد دے، اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کے ثواب کی خوبی بھی عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘(سورہ آل عمران:146-148).
6. ذکر الٰہی : استقامت اور ثابت قدمی کے سب سے عظیم اسباب و ذرائع میں سے ایک اللہ کا ذکر ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے، اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو(انفال:45)، چنانچہ اس ذکر کو جہاد میں استقامت اور ثابت قدمی کے معاونت میں سب سے عظیم سبب اور ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔‘‘ اللہ کے نبی حضرت یوسف علیہ السلام نے جاہ و منصب ، جمال و خوبصورت والی عورت کے فتنہ کے سامنے ثابت قدم رہنے میں کس سے مدد حاصل کی جب اس عورت نے ان کواپنے ساتھ (بدکاری کرنے کے لئے)دعوت دی، توکیا’’معاذاللہ‘‘ اللہ کی پناہ کے مضبوط قلعہ میں داخل نہیں ہوئے،جس سے شہوات اورنفسانی خواہشات کے لشکروں کے امواج (استقامت اورثابت قدمی) کے مضبوط اور قلعہ نما چہار دیواروں کے سامنے ریزہ ریزہ ہو گیے؟‘‘،اوراسی طرح مومنوں کو ثابت قدمی دلانے میں ذکر و اذکار کی تاثیر ہوتی ہے.
دعا ہے کہ اللہ تعالی رمضان المبارک میں کی گئی ہماری عبادات کو قبول فرمائے، کمیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور ہمیشہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین.

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں