نبی ﷺ سے دائمی محبت ایمان کا تقاضا
ظفر کبیر نگری
شیو بزرگ، تعلقہ کھیڈ، ضلع رتناگری
ہر سال جب ربیع الاول آتا ہے تو گلی محلوں میں اہل اسلام کی جانب سے جلوس نکالنے، خوشیاں منانے، پرچم لہرانے،. گلیوں اور بازاروں میں تقریبات کا انعقاد کرنے، در و دیوار کو سجانے، جلوس میں شرکت کرکے اپنی اپنی محبت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ مساجد میں درود و سلام کی محافل کے انعقاد کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، مساجد کو برقی قمقوں سے سجادیا جاتا ہے اور بارہ دن ہم اسے خوب جوش و خروش اور عقیدت سے مناتے ہیں لیکن اس کے بعد کسی کو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یا اس پر عمل کرنا یاد نہیں رہتا،ہمارے اعمال نہیں بدلتے، ہماری زندگیاں نہیں بدلتیں، ہمارے روزوشب نہیں بدلتے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نے دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اپنے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اپنے رب کو ہم تب ہی راضی کر سکتے ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کریں، ارشادِ ربانی ہے: "کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے بھائی بیویاں قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔"(التوبہ24)، یعنی وہ قریب ترین رشتہ دار اولاد بیوی ماں باپ جن کے ساتھ انسان شب و روز گزارتا ہے اور مال و اسباب، کاروبار یہ سب چیزیں اپنی جگہ اہمیت اور افادیت کی حامل ہیں لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے زیادہ ہو جائے تو یہ بات اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسندیدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے محروم ہوسکتا ہے جس طرح کے آخری الفاظ سے واضح ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : "قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہو جاؤں۔" (صحیح بخاری:کتاب الایمان)، ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب تک میں آپ کو اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اس وقت تک آپ مومن نہیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا پس واللہ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے عمر ! اب تم مومن ہو(بخاری و مسلم)،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں محبت کا معیار بتا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اپنی جان و مال اولاد والدین عزیزواقارب حتیٰ کہ ہر عزیز چیز سے زیادہ ہونی چاہیے اور یہی دین و ایمان کی اساس اور بنیاد ہے اور اگر اس میں کمی ہوگی تو دین و ایمان میں کمی اور خامی باقی رہ جائیگی، اب اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ محبت اس وقت تک سچی قرار نہیں پاتی جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہر معاملے میں نہ کرے ۔کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کی محبت اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتی جب تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع نہ کرے اور یہی اصل محبت کا تقاضا ہے۔ بات سمجھنے کی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت لازمی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کی جائے اور اپنی تمام زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال لیا جائے، اصل محبت تو یہی ہے اور انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی اطاعت کرتا ہے، اس کی فرمابرداری کرتا ہے، اس کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسند بنا لیتا ہے، اس کی سوچ اور فکر کو پھیلانے کی فکر میں رہتا ہے اور اپنے محبوب کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، اسے اپنے محبوب کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے اور یہی تمام چیزیں ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں سے ملتی ہیں، صحابہ کرام کی محبت کا تو یہ عالم تھا کہ جب انہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پسند اور ناپسند کا پتہ چلتا تو اس پر بغیر کسی قیل و قال کے عمل شروع کر دیتے، یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہننے ، اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے چلنے پھرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر ادا کو اپنا لیا تھا اور اپنی زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سانچے میں ڈھال لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ایسے لوگوں کیلئے واجب ہو گی جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس درجے تک محبت کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اصل تقاضا ہے اور اصل محبت تو یہی ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسندبنا لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں، اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب دل میں سچی محبت ہو.
اب ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا تعلق یہ تقاضے پورے کرتا ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہماری طرز زندگی ہے؟ کیا ہمارے عشق کی گواہی ہمارے اعمال فراہم کر رہے ہیں؟ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعوے دار تو ہیں، تو کیا ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں؟ کیا ہماری طرز زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق ہے؟ کیا ہمارے لبوں پر ہر وقت اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر رہتا ہے؟ اگر نہیں تو ابھی سے شروع کر دینا چاہئے کیونکہ اللہ کو راضی کرنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنی ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا، اصل محبت کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کو سیکھ کر اور اس پر عمل کرکے ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، اپنی ساری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال دینا ہی اصل محبت ہے، اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کے دعوے دار ہیں تو ہمیں اپنے قول و فعل سے اور اپنے عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا، یہی اصل محبت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ ہم محمدی نظر آئیں، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق نظر آئیں اور زندگی کے ہر قدم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں، یہی اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصل محبت کا تقاضا ہے، ہم اپنی تمام تر زندگی میں بغیر کسی قیل و قال کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں، یہی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہے، اللہ تعالی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے دل و جان میں جا نگزیں فرما دے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں